Wednesday 29 January 2014

کلیۃ القرآن الکریم والعلوم الاسلامیہ،جامعہ لاہور الاسلامیہ





بسم الله الرحمان الرحیم

کلیۃ القرآن الکریم والعلوم الاسلامیہ،جامعہ لاہور الاسلامیہ
91بابر بلاک نیوگارڈن ٹاؤن لاہور

کے دوسرے اور بنیادی مرحلے

’’ دفاعِ قرآن وحدیث اکیڈمی‘‘

کے قیام  کے منصوبے کا مختصر تعارف

ترجمہ
قاری محمد مصطفیٰ راسخ





تمام تعریفیں اس اللہ کےلیے ہیں جس نے امت مسلمہ کو ان روشن دلائل سے سرفراز فرمایا،جن کی راتیں دنوں کی مانندہیں جن سے روگرانی کرنے والا ہلاکت میں گرنے والا ہے، اور اس امت کے لیے کتاب اللہ اور سنت رسول کے ذریعے صراط مستقیم کی راہنمائی کو آسان کردیا۔
سید عبد اللہ بن عباس ﷜ فرماتے ہیں:
اللہ تعالی نے قرآن مجید پڑھنے اور اس میں موجود احکام پر عمل کرنے والے کے بارے میں یہ ضمانت دی ہے کہ وہ دنیا میں اسے گمراہ نہیں کرے گا اور آخرت میں اسے بدنصیب نہیں بنائےگا۔ پھر قرآن  مجیدکی یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:
﴿فَإِمّا يَأتِيَنَّكُم مِنّى هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُداىَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشقىٰ
’’پساب تمہارے پاس کبھی میری طرف سے ہدایت پہنچے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وه بہکے گا نہ تکلیف میں پڑے گا ‘‘
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
"تركت فيكم امرين ماإن تمسكتم بهما لن تضلوا أبداً: كتاب الله وسنتى"
’’میں تم میں وہ چیزیں چھوڑ رہا ہوں ، اگر تم انہیں مضبوطی سے تھامے رکھو تو ہرگزگمراہ  نہ ہوگے۔ وہ اللہ کی کتاب اور میری سنت ہے۔‘‘
قرون اولی میں امت جب تک نبی اکرمﷺ کی اس وصیت پر عمل پیرا رہی ، فلاح و بہبود او رسعادت مندی نے اس کے قد م چومے، اور یہ کائنات کی سب سے بہترین امت قرار پائی۔
پھر سابقہ اقوام کی مانند امت مسلمہ بھی مختلف مسائل کا شکار ہوگئی اور صحیح منہج سے دوری کے مرض میں مبتلاء ہوگئی۔بات یہیں پر نہ رکی ، بلکہ مشرک اور کافر اقوام اس پر غالب آگئیں، اس کی زمینوں پر قبضہ کرلیا، اس کے بہترین افراد اور ان کی عقلوں پر ایسا تسلط قائم کیا کہ کفر یہ ثقافت کمزور ایمان والوں کے دلوں میں پختہ ہوگئی۔
پھر ہم ان لوگوں کو بھی دیکھتے اورسنتے ہیں، جو ہر شئی میں مغرب اور اس کی تہذیب کو اپنانے کی دعوت دیتےہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ قرآن مجید محدود مدت او رمحدود ایام کے لیے کار آمد تھا۔ قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل کرکے ترقی نہیں کی جاسکتی ۔شریعت اسلامیہ ، ایک سخت گیر شریعت ہے جس میں رحم نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔
ان فکری خباثتوں اور عقلی گمراہیوں کو کمزور ایمان والوں میں پھیلانے کے لیے انہوں نے مصدر ہدایت قرآن مجید میں شکوک و شبہات پیدا کئے اور ان کے عقیدے کو مشکوک بنادیا۔
مستشرقین اور ائمہ کفر نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ نہیں ہے، بلکہ محمدؐ نے اسے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے۔ محمدؐ اللہ کے رسول نہیں تھے،بلکہ انہوں خود ہی نبوت اور رسالت کا دعویٰ کیا تھا۔ وہ اپنی خواہش اور پسندیدگی کے مطابق احکام بیان کرتے تھے۔ انہوں نے تمام تعلیمات سابقہ کتب تورات و انجیل سے اخذ کی ہیں او ر اسلام نصرانیت ہی کی ایک محرف شدہ شکل ہے۔
ان گمراہ کن آراء اور خبیث افکار کے پھیلاؤ میں انہیں روافض اور باطنیہ جیسے بعض گمراہ فرقوں نے بنیاد فراہم کی۔
جن کا خیال ہے کہ ہمارے پاس موجود قرآن مجید وہ قرآن نہیں ہے جو نبی کریمﷺ پر نازل ہوا تھا ، بلکہ یہ وہ قرآن ہے جسے سیدنا عثمان بن عفان﷜ نے جمع کیا تھا اور انہوں نے اس میں سے جو چاہا، حذف کردیا۔
امام ابوبکر محمد بن قاسم انباری فرماتے ہیں:
’’ہمیشہ سے اہل علم و فضل واہل عقل وبصیرت قرآن مجید کےمقام و مرتبہ اور فضیلت کے معترف رہے ہیں۔ حتی کہ  اب ہمارے زمانے میں امت کو تباہ کردینے والا اور ملت سے خارج کردینے والایہ فتنہ پھوٹ پڑا ہے کہ سیدنا عثمان بن عفان﷜ نے باتفاق صحابہ جو مصحف جمع فرمایا تھا ، وہ جمیع قرآن پر مشتمل نہیں تھا، سیدنا عثمان بن عفان﷜ نے اس میں سے پانچ حروف ساقط کردیے تھے۔
پھر امام انباری فرماتے ہیں:
 یہ زندیق آیات قرآنیہ میں تحریف کرتے ہوئے انہیں غلط پڑھتا  تھا اور :’’ولقد نصرکم اللہ ببدربسیف علی وانتم اذلۃ‘‘ (القرطبی:1؍82) پڑھتا تھا۔ اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے خبیث رافضی مؤلف ’’حسین نوری طبرسی‘‘ نے ’’فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب ‘‘ نامی کتاب لکھ ڈالی۔
اسی طرح مستشرقین کا ایک گروہ مکمل قرآن مجید کا تو انکار نہیں کرتا، البتہ قراءات متواترہ کا منکر ہے۔
جس طرح یہودی مستشرق ’’ گولڈ زیہر‘‘ اپنی کتاب ’’المذاہب الاسلامیہ فی تفسیر القرآن ‘‘ میں لکھتا ہے:
’’الذی ینزل به الملك علی الرسول المختار، یجب ان یکون علی شکل واحد وبلفظ واحد‘‘
’’وہ قرآن مجید جسے فرشتہ نبی کریمﷺ پر لاتا تھا، لازم ہے کہ وہ ایک ہی لفظ  اور شکل پر ہو۔‘‘
اسی طرح معروف مستشرق ’’نولڈ کہ‘‘ اپنی کتاب تاریخ القرآن میں لکھتا ہے:
’’کان السبب الاول لظهور حركة القراءات فیما اهمل نقطه وشکله من القرآن‘‘[1]
’’قراءات کی حرکات کے ظہور کا سب سے اولین سبب قرآن کا نقط واعراب سے خالی ہونا تھا‘‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ صحابہ کرام﷢،تابعین عظام سے لیکر آج تک تمام مسلمانوں نے احتمالی رسم سے ان قراءات کوخود گھڑلیا ہے اور انہیں نبی کریمﷺ کی طرف منسوب کردیا ہے اوراس نسبت میں انہوں نے جھوٹ بولا ہے کہ ہم نے نبی کریم سے طبقہ عن طبقہ اور نسل در نسل سیکھا ہے۔
گولڈ زیہر اور نولڈکہ کوئی پہلےمستشرق نہیں ہیں جنہوں نے قرآن مجید، قراء کرام اور علماء اسلام پر یہ بہتان طرازی کی ہے ۔ یہ رائے تو مستشرقین  کے ہاں  بہت قدیم زمانے سے معروف چلی آرہی ہے جس پر اعتماد کرتےہوئے وہ قرآن مجید ، قراءات، روایات ، حدیث اور اسانید محدثین پر طعن کرتے ہیں۔
ہمیں باطنی صوفیوں اور ا ن کے متبعین کی دشتام طرازیوں کو بھی نہیں بھولنا چاہئے، جن کا دعویٰ ہے کہ قرآن مجید کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے ۔ قرآن مجید سے جو مفہوم عام لوگ مستنبط کرتے ہیں وہ اس سے مقصود نہیں ہوتا،بلکہ اس کا ایک باطنی مفہوم بھی ہوتا ہے ، جو اصل مقصود ہوتا ہے او روہ مفہوم بعض متعین اشخاص کے ذریعے ہی اخذ ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ ان سے پردے اٹھالیے گئےہیں ، ان پر حقیقت منکشف کردی گئی ہے، وہ اسے آنکھوں سے اپنے سامنے دیکھتے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن مجید کے حقیقی معانی کو سمجھاہے ان کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
ان نام نہاد مسلمان صوفیاء کے عقائد و نظریات سے مستشرقین نے خوب فائدہ اٹھایا اور ان سے استدلال کرتے ہوئے اسلام پر اعتراضات کی پوچھاڑ کردی۔
ان استشراقی نظریات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے دلوں سے کتاب اللہ کی عظمت وشان اور اس کے مقام و مرتبہ کو کم کردیا جائے۔ کیونکہ یہی ہدایت کا حقیقی مصدر ہے ،جب اس میں شکوک و شبہات پیدا کردیئے جائیں گے تو اسلام کی عمارت منہدم ہوجائے گی اور اپنی بنیادوں سے اکھڑ جائےگی۔
لیکن افسوس! کہ ہمارے بعض نام نہاد مسلمان بھی مستشرقین کی ان  بہتان طرازیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے .... خصوصاً یورپی اور المانی استشراق کے ظہور کے بعد .... جس نےاسلام اور مسلمانوں کو ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار کردیا۔
آج فکر قرآن کے نام  نہاد علمبردار بھی دشمنان اسلام کے انہی افکار کو تھامے ہوئے ہیں۔اور بڑے عجیب وغریب اور ملحدانہ نظریات کوفروغ دے رہےہیں۔ جیساکہ پاکستانی زندیق، غلام احمد پرویز ’ قرآن مجید کےحفظ اور اس کی تلاوت کا منکر ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ سلف و خلف علماء امت میں سے کسی نے بھی حکمت قرآن کو نہیں سیکھا، انہوں نے اس کو اللہ کی شریعت ثابتہ بنادیا ہے، حالانکہ شریعت میں ہمیشہ تغیر و تبدل جاری رہتا ہے۔
اسی طرح بعض متجددین بلاد مشرق میں رائج روایت حفص عن عاصم کے علاوہ باقی تمام قراءات متواترہ کا انکار کرتے ہیں۔ اور ان کا یہ دعویٰ ہے کہ روایت حفص ہی تنہا قراءۃ متواترہ ہے، جبکہ باقی قراءات ، قراء کی مفتریات ہیں ۔ حتی کہ ان میں سے بعض نے کہا کہ قراءات سبعہ  کا وحی کے ساتھ تھوڑا یا زیادہ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا منکر نہ تو کافر ہے اور نہ ہی فاسق، اور نہ ہی ان کےدین میں کوئی طعن کیا جائے گا۔ ان کا مصدر لہجات ہیں۔
لیکن افسوس صد افسوس! کہ بعض مخلص علماء بھی بلا سوچے سمجھے ان کی آراء پر اعتماد کرتے ہیں اور کہہ دیتے کہ سیدنا عثمانؓ نے جس قراءت کوباقی رکھا تھا وہ روایت حفص عن عاصم ہی تھی اور اور یہی صحیح قراءات ہے ۔ نعوذباللہ من ذلک
اگر یہ حضرات عقل سے کام لیتےاور اندھیرے میں تیر مارنے کی بجائے ذرا گہرائی سے سوچتے تو انہیں اس بات کا علم ہوجاتا کہ مستشرقین کی رائے کے پیچھے کیا مقاصد و نتائج کا رفرماہیں۔مستشرقین کی رائے کی مطابق قرآن مجید کی وہ وجہ ، جس پر وہ نازل کیا گیا تھا وجوہ متعددہ کے ساتھ پڑھنے کے سبب مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گئی ہے۔ کیونکہ واجب ہے کہ قرآن مجید کو ایک لفظ او رایک شکل پر پڑھا جائے.... جیسا کہ پہلے گولڈ زیہر کا قول گزر چکا ہے .... اور وہ وجہ غیر معین اور غیر معروف وجوہ میں داخل ہوگئی ہے یا شاید ممکن ہے کہ وہ ان وجوہ میں موجود ہی نہ ہو۔
کیونکہ مسلمانوں نے ....ان کی رائے کے مطابق .... قرآن مجید کو ان وجوہ پر پڑھا ہے، جن کا رسم احتمال رکھتا تھا۔ نہ کہ ان وجوہ پر پڑھا ہے جو اللہ کی طرف سے نازل کی گئی تھیں اور ان کی صحت و قراءت نبی کریمﷺ سے ثابت تھی۔
مستشرقین اور ان کے دم چھلوں کی رائے کے مطابق قرآن مجید تمام قراءات میں نازل نہیں ہوا ہے ۔ وہ ان میں سے کسی غیر معین قراءت میں نازل ہواہے، جسے نہ مسلمان جانتے ہیں اور نہ مستشرقین۔ نعوذباللہ من ذلک۔
’’وما یكون لنا ان نتكلم بهذا سبحنك هذا بهتان عظیم‘‘
٭یہی حالت  سنت مطہرہ کی ہے ، جو ان کے نجس اور خبیث اعتراضات کے تیروں سے نہیں بچ سکی۔ انہوں نے سنت نبوی پر بھی متعدد شبہات اوراعتراضات اٹھائے ہیں۔ مثلاً سنت نبوی نبی کریمﷺ کی وفات سے تقریباً دو صدیاں بعد مدون ہوئی ہے ، جس کے سبب اس میں متعدد ایسی اشیاء آگئی ہیں جو اس میں سے نہیں ہیں۔ رواۃ نے کبھی  اپنی فکری ، اعتقادی اور مذہبی خواہشات کو اس میں شامل کیا تو کبھی حکام کو خوش کرنے کے لیے نئی نئی چیزیں گھڑلیں۔
جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مدون شکل میں جوسنت ہم تک پہنچی ہے وہ نبی کریمﷺ کے اقوال وافعال نہیں ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر صاحب شریعت ( نبی کریم) پر گھڑے گئے کذب اور بہتان ہیں۔
پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ نبی کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ کےتھوڑے سے عرصہ میں آپؐ سے اتنے زیادہ اقوال و افعال صادر ہوئے ہوں، جن کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچتی ہو، کم از کم دس ہزار ۔اورعادتاً یہ ایک محال امر ہے۔
ان شبہات وضلالات کے ذریعے انہوں نے متعدد نام نہاد مسلمانوں کو فتنے میں مبتلا کردیا۔ اورایک ایسی جماعت معرض وجود میں آگئی جو مکمل طور پر حدیث نبوی کی منکر ہے۔ ان کا کہنا کہ ہمیں قرآن ہی کافی ہے۔ گویا وہ حدیث کو قرآن مجید کی مخالف سمجھتے ہیں۔
ایسے ہی ایک دوسری جماعت بھی سامنے آئی جو مکمل طور پر تو حدیث کا انکار نہیں کرتی ، مگر انہوں نےحدیث نبوی کے قبول و رد کے لیے اپنا ایک معیار قائم کرلیا کہ جو حدیث ہماری عقل کے موافق ہوگی وہ قبول ہے اور جو مخالف ہوگی وہ مردود ہے، چاہے وہ متواترسند سے ہی کیوں نہ ثابت ہو۔
٭ انہوں نے فقہی احکام کے میدان میں شریعت پر یہ بہتان باندھا کہ شریعت اسلامیہ عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر وعاجز ہے۔ یہ شریعت ایک محدود وقت میں ، مخصوص گروہ کے لیے معین حالات میں نازل کی گئی تھی جو ان کے علاوہ  دیگر لوگوں کے لیے کار آمد نہیں ہے۔
پس ہم پرواجب ہے کہ ہم شریعت کو مسجد تک محدود کردیں، اس سے باہر نہ نکلنے دیں۔ ان کا خیال ہے کہ روزہ اگر مصنوعات کی پیداوار کو نقصان نہ پہنچائے تواسے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، تاکہ وطن ترقی کرے۔ایسے ہی حج اور عمرے کو وہ اسلامی سیرو تفریح کا نام دیتے ہیں۔
باقی احکام کو انہوں نے مہمل اور معطل قرار دیتے ہوئے ایک تاریخی ورثہ بنادیا ہے۔جسے وہ ایک گزری تہذیب سے متعارف ہونے کے لیے پڑھتے ہیں اور اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس تاریخی عجوبے کا ایک مسلمان کی یومیہ زندگی کےساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان افکار باطلہ کے فروغ میں بلاد اسلامیہ پر قابض استعماری قوتوں نے بھر پور مدد کی ، انہوں نے مسلمانوں کے عقیدہ وشریعت کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور مختلف فکری ،عسکری اور اقتصادی ذرائع و وسائل کوبروئے کار لاتے ہوئے امت مسلمہ کی کمر میں ایسا خنجر گھونپا جس کے زخموں کی ٹھیس ہم آج تک محسوس کرتے چلے آرہے ہیں۔
پھر امت مسلمہ میں برپا ہونے والی تحریکات آزادی بھی ناقص و قاصر تھیں۔ کیونکہ ان کا انتہائی مقصود محدود وطن کا حصول تھا، جس کا نقشہ پہلے سے ہی استعمار اور اس کے معاونین کی مدد سے ان کے لیے بنادیا گیا تھا۔
نیز ان تحریکات آزادی نے ملک ہاتھ میں آجانے کے بعد وہاں شروع ہی سے سیکولرازم پر اعتماد کیا اور اسے اپنے ملک میں نافذ کیا۔ چنانچہ یہ ڈکٹیٹراسلام اور مسلمانوں پر اصلی کفار سے زیادہ سخت واقع ہوئےاور انہوں نے دشمنان اسلام اور استعمار کےقوانین و مفادات کوہی آگے بڑھایا اور اگر کہیں کچھ تھوڑا بہت ٹکراؤ بھی پیدا  تو استعمار کی طرف سے مقرر کیے گئے ان حکمرانوں نے قوت اور طاقت کے استعمال میں ذرا تردد نہ کیا، خواہ اس سے معاشرے کے تمام افرادہی کیوں نہ ختم ہوجائیں۔
اس کے ساتھ ہی ان ڈکٹیٹروں نے ہر میدان میں آمریت کو نافذ کیا اور اس کے خلاف آواز اٹھانے والے ہر فرد کو کو تہس نہس کردیا۔ اور امت کی یہ حالت کسی سے مخفی نہیں ہے۔
چنانچہ یہ حکمران اور ان کے آلہ کار اسلام اور مسلمانوں کے لیے دشمنان اسلام سے بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئے۔
٭ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ قرون اولی کے بعد امت شرک وبدعات کے مرض میں مبتلاہوگئی۔ بدعت کو سنت اورسنت کو بدعت  کہا جانے لگا۔ جہالت عام تھی ،بحث و تحقیق کی روح مفقود تھی۔ مذہبی تعصبات اور افراد کی آراء کی تقدیس نےسنت کا درجہ حاصل کرلیا۔
دین اسلام جو نرم اور آسان تھا جسے ہر آدمی سمجھ سکتا تھا اسےباریک عبارتوں، حواشی اور مغالطات کے ذریعے پیچیدہ اور مشکل بنادیا گیا، جو لوگوں کے فہم و ادراک سے بالاتر ہوگیا۔ اب اسے صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو متون ،حواشی اور مختصرات کو پڑھنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
اور لوگ اس عقیدہ توحید سے دور ہوگئے، جس کے لیے  کائنات وجود میں آئی اور انبیاء ورسل کو مبعوث کیا گیا تھا۔ عقید توحید کی جگہ شرک وبدعات نےلے لی۔ مُردوں سے مدد مانگی جانے لگی، ان کے نام پر جانور ذبح کئے جانے لگے، ان کے لیے نذریں مانی جانے لگیں۔  ان کی قبروں کو پختہ اور خوبصورت بنا کر ان پر قبے تعمیر کئے جانے لگے ۔ قبروں پر حریر وریشم کے چڑھاوے چڑھانے جانے لگے۔ حالانکہ امت کی حالت یہ ہے کہ اس کے بعض افراد کو ستر ڈھانپنے کے لیے کپڑا تک دستیاب نہیں، پیٹ بھر کر کھانا کھانا مقدر میں نہیں اور ان جیسی متعدد ایسی عبادات وعادات گھڑلی گئیں جو عقیدہ توحید کے منافی تھیں۔
٭ خرافات و بدعات پر مبنی یونانی فلسفے نے کتاب وسنت پس پشت ڈال دیا اور نبی کریم کی سنت مبارکہ کو چھوڑکر لوگوں کے افکار و آراء کو اپنا لیا گیا، حالانکہ ان پر عمل کرنے  کے بارے میں اللہ تعالی نے کوئی  دلیل نازل نہیں فرمائی۔اس طرح امت محمدیہ نے ہر معاملہ میں سابقہ امتوں کی اتباع کی۔
ہمیں یہ یار رکھنا ہوگا کہ امت اسوقت اپنے اخلاق و کردار کو کھوچکی ہے۔ فسق وفجور ، فواحش اور معاصی کا سرعام ارتکاب کیا جاتا ہے۔ کوئی چھوٹا بڑا اس سے محفوظ نہیں ۔ الاماشاء اللہ
جہاد کی دونوں اقسام، جہادبالعدو اورجہاد بالنفس کو چھوڑ دیا گیا ہے، جس کے سبب انفرادی اور اجتماعی دونوں اعتبار سے ذلت ومسکینی چھاچکی ہے ، اس کے ساتھ ساتھ تعلیم وتحقیق سمیت ہر میدان میں ہم پیچھے رہ گئے ہیں ۔ بلاد اسلامیہ میں جہالت، تنزلی اور انحطاط عام ہے۔ حالانکہ اپنے سنہری دور میں یہ امت سب اقوام کی راہنما اور سردار تھی۔
جس وقت یہ امت لاعلمی اور عدم معرفت کی گہری نیند سوئی تھی، اس وقت اس کا دشمن مادی، اقتصادی اور عسکری میدان میں ترقی کے جھنڈے گاڑ رہا تھا اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھ رہا تھا۔
ہم ابھی تک اس دور کے انحطاط کے اثرات کو دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا کھانا، ہمارے لباس، ہماری طبی اور مصنوعاتی ضروریات کی چیزیں سب ہمارے دشمن کے پاس سے آتی ہیں۔ مسلمانوں کے بچے ان کے پاس پڑھتے ہیں او ران کی تہذیب و ثقافت کے فتنے میں مبتلاء ہوجاتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ ان سے مرعوب ہو کر ہر کام میں ان کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہے۔ لاحول ولا قوۃ الاباللہ
٭ ا ن مشکلات و مصائب کے باوجود امت کا دل خیر وبھلائی اور اصلاح معاشرہ کے لیے دھڑکتا رہا اور کتاب وسنت اور سلف صالحین کے منہج کی دعوت دیتا رہا۔ آخر کار اللہ تعالی نے ان کمزور کوششوں او رجدوجہد کو برکت سے نوازا اور متعدد اسلامی تحریکیں پیدا ہوئیں ، جو اللہ کے رب ہونے پر محمدؐ کے نبی اور نمونہ ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر خوش تھیں۔ اور یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ ایسے لوگ ہر جگہ اور ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں۔
اللہ کا یہ فضل اور احسان ہے کہ وہ اپنے دین او رنیک بندوں کی مدد کرتا ہے ۔ کتنی  ہی ترقی یافتہ قومیں اپناوجود کھوچکی ہیں اور ان کا نام ونشان تک مٹ چکا ہے۔ ان کاتذکرہ اب صرف تاریخ کی کتب میں ملتا ہے .... دریافت کے وقت امریکہ میں جو کچھ ہو ا وہ ا س پر بہت بڑی گواہی ہے ....جیسے مایا اور ازتاک تہذیبیں۔
اللہ تعالی نےامت مسلمہ کی حفاظت فرمائی اور  اسے تباہ و برباد ہونے سے بچا لیا۔مخالفین اسلام اور اعدائے دین اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے اور یہ الحمد للہ اب بڑھتی اورپھیلتی چلی جارہی ہے۔ جس نے جنسی اور وطنی عصبیت کو اکھاڑ پھینکا ہے اور اسلام کی گودمیں آپناہ لی ہے ۔ اس  امت  میں عربی او رعجمی میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اگر کوئی محترم اور معزز ہے تو وہ  تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔
٭ ان مخلص اور ایمان دار لوگوں میں سے ہمارے پاکستانی سلفی بھائی بھی ہیں، جنہیں اہل حدیث کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی پوری قوت کے ساتھ فکری اور ثقافتی یلغار کا مقابلہ کیا اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کتاب وسنت کو گود پرورش پانے والے اور ان صافی چشموں سے پانی پینے والے نوجوان کی ایک کھیپ تیار ہوگئی۔
پھر اللہ تعالی نے ان نوجوانوں کو توحید و ایمان کی اساس پر قائم مملکت عربیہ سعودیہ جانے کے شرف سےنوازا۔ جہاں جاکر انہوں نے شریعت اسلامیہ کے چشمہ صافی سے سیرابی حاصل کی اور علم نافع وعقیدہ صحیحہ کی تعلیم حاصل کی ۔ جب یہ مبارک گروہ اپنے وطن واپس آیاتو انہوں نے متعدد اسلامی وعربی مدارس کی بنیادرکھی اور اپنی خد ادا صلاحیتوں کوفروغ  اسلام کے مشن میں کھپادیا۔جس کے بےشمار فوائد سامنے آئے ۔ خیرو بھلائی اور نیکی کا ظہور ہوا، صراط مستقیم واضح ہوگیا اورگمراہوں کے  لیے گمراہی کے علاوہ کچھ نہ بچا۔
اب دوہی رستے تھے کہ یا تو حق کی اپنا لیا جائے یا پھر اس سے منہ موڑلیا جائے، اس کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ نہ تھا۔
ان فاضل نوجوانوں کے گروہ میں سے ایک عظیم شخصیت فضیلۃ الشیخ قاری المقری محمد ابراہیم بن حافظ محمد عبداللہ میر محمدی ﷾ ہیں، جنہیں اللہ تعالی نے قرآن مجید حفظ کرنے کی توفیق دی اور جامعہ اسلامیہ ، مدینہ منورہ، سعودی عرب میں تقریباً گیارہ سال تک تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا۔ آپ نے جامعہ اسلامیہ کے کلیۃ القرآن الکریم سے ماجستیر کی سند حاصل کی۔
محترم قاری صاحب کو ترقی یافتہ ممالک میں  کام کرنے کے لیے بڑی پرکشش تنخواہوں کی آفرز کی گئیں، مگر انہوں نے سب کو مسترد کرتے ہوئے اپنے آبائی وطن پاکستان میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار فرمایا، تاکہ مسلمانوں کی صحیح عقیدہ اور درست منہج کی طرف راہنمائی کی جاسکے۔
محترم قاری صاحب جب پاکستان تشریف لائے تو پاکستان کے معروف سلفی عالم دین حافظ عبدالرحمان مدنی ﷾ نے انہیں جامعہ لاہور الاسلامیہ میں خدمات انجام دینے کی پیشکش کی ، جسے قاری صاحب نے کشادہ دلی سے قبول فرمالیا۔ محترم قاری صاحب نے وہاں کلیۃ القرآن الکریم کی بنیاد رکھی اور اس کے نصاب میں درس نظامی کے ساتھ تجوید و قراءات و رسم وضبط جیسے علوم قرآن کو جمع فرمادیا۔
اپنے اس جدید نظام کے تحت چلنے والا یہ پاکستان کا اولین کلیہ تھا جس سے فارغ التحصیل ہونے والا طالب علوم شریعہ وعربیہ میں مہارت کے ساتھ ساتھ ، تجوید وقراءات سبعہ و عشرہ کابھی ماہر ہوتا ہے۔
پاکستان کے اکثر مدارس میں یہ طریقہ معروف ہے کہ درس نظامی اور علوم قرآن کو الگ الگ پڑھایا جاتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مدارس قرآن کریم سے فارغ التحصیل طالب علم حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ تجوید وقراءات کو پڑھ لیتا ہے ، مگر فقہ ، حدیث اور علوم شریعت سے بے گانہ ہوتا ہے۔جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرے میں کوئی مناسب مقام حاصل نہیں کرسکتا او رنہ ہی قرآن مجید اور قراءات قرآنیہ پر وارد اعتراضات کا دفاع کرسکتا ہے ۔ یہاں تک کہ اکثر لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ بلاد مشرق میں متداول روایت حفص عن عاصم ہی  قرآن مجید کی ایک متواترقراءات ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی قراءت نہیں ہے۔اسی طرح وہ عصر حاضرکے تقاضوں  او رچیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
 اور یہی حال صرف درس نظامی پڑھنے والے طلباء کا ہوتا ہے وہ اپنے مدرسے سے درس نظامی کی سند تو حاصل کر لیتے ہیں مگر قرآن مجید پورا تودور کی بات ،سورۃ الفاتحہ کو بھی صحیح تلفظ کے ساتھ نہیں پڑھ سکتے۔ اور پھر علوم قرآن خصوصاً تجوید وقراءات اور رسم میں بعض ایسی عجیب و غریب آراء کا اظہار کرتے ہیں ، جو مستشرقین ،ملاحدہ اور زنادقہ جیسے دشمنان کو اعترضات کرنے کاموقع مہیا کرتی ہیں۔ اسی طرح بعض مسلمان بھی ان اعدائے دین کی مزین گفتگو سے متاثر نظر آتے ہیں جیسے پاکستان میں ’’فکر اصلاحی‘‘ کے علمبردار۔
چنانچہ محترم قاری صاحب کی دوراندیش نگاہ نے اس کوتاہی کو پہچان لیا کہ یہ  طریقہ تعلیم تو قراء اورفقہاء دونوں قسم کے طلباء کے لیے نقص اورگالی ہے۔کیونکہ علوم شرعیہ ایک کلی کی مانند ہیں، جسے تمام علوم ملکر مکمل کرتے ہیں اور کلیۃ القرآن الکریم ، جامعہ لاہور الاسلامیہ اب اسی منہج پر قائم ہے۔
پھر یہ بات یادرہے کہ ’’کلیۃ القرآن الکریم‘‘ کے قیام کا مقصد صرف قراء یاصرف فقہاء کو تیار کرنا نہیں ہےبلکہ اس کے قیام کا مقصد بڑا عظیم اوربلند ہے ۔ وہ یہ کہ ایمان دار نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار کی جائے جوعلم و معرفت سےمسلح ہونے کےساتھ عصر حاضر کےتقاضوں کو بھی سمجھتی ہو۔ دشمنانِ اسلام کے اعتراضات کا جواب دے کر ان کے مکروہ عزائم کا بھرپور جواب دے  سکتی ہو اور ان کی چالوں کو خاک میں ملاسکتی ہو۔تاکہ ان کی گمراہیوں کا سدباب ہو جاسکے اوران کی مزین گفتگو سے متاثر ہونے والے مسلمان صراط مستقیم پر واپس لوٹ آئیں۔
اس مبارک اورعظیم مشن کی تکمیل کے لیے محترم قاری محمد ابراہیم صاحب﷾ کی شدید خواہش ہے کہ ایک
’’ دفاع قرآن وحدیث اکیڈمی‘‘
کا قیام عمل میں لایا جائے،جو شریعت اسلامیہ کے دفاع کی ذمہ داری اٹھائے اور  اس کے علمی و عملی تمام روشن پہلوؤں کے محاسن کو اجاگر کرے اور اس کا یہ کام ، علمی، سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی تمام میدانوں میں ہو۔ یہ اکیڈمی مستشرقین  اور ان کے سیاسی و اقتصادی آلہ کاروں کے شبہات کا رد کرے اور کتاب وسنت کے اسلحہ سے ان کا جواب دے تاکہ حق واضح ہوجائے اور چلنے والوں کے لیے رستہ صاف ہوجائے۔
اکیڈمی کے اہداف
1.     اسلامی ثقافت کا فروغ، جس کی بنیاد عقیدہ توحید ہے ۔ جس کے لیے کائنات پیدا کی گئی ہے۔ (وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون)
2.     سنت نبوی کاا حیاء
3.     بدعات وخرافات کا مقابلہ
4.     مخلوق خدا کی سلف صالحین کے منہج کی طرف راہنمائی
5.     جاہل مسلمانوں کی حکمت اور احسن طریقے سے تعلیم
6.     شریعت اسلامیہ کی حکمتوں کی وضاحت ،یہ سب کی  سب خیر اور برکت ہے۔
سب کی سب خیر شریعت میں ہے، جبکہ شریعت کے علاوہ آنے والی ناقص اورگمراہ کن آراء شراور فساد ہیں۔
یہ اکیڈمی جس کے قیام کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ، ان شاء اللہ خیر کی پہلی اینٹ ثابت ہوگی۔ جو امت کو گہری نیند سے بیدار کرنے اور اسے اس کے اصل مقصد کی طرف رجوع کرنےمیں مدد دے گی۔
امت کاحقیقی کام یہی ہے کہ  مخلوق خدا کی ہدایت و راہنمائی کا بیڑا اٹھائے اور ان کی قیادت کرے۔ کیونکہ اس میں دین و دنیا  دونوں جہانوںکی بہتری و بھلائی ہے۔
چنانچہ کلیۃ القرآن الکریم کا قیام اس ’’دفاع قرآن وحدیث اکیڈمی‘‘کے قیام کا پہلا مرحلہ ہےاوردوسرا بنیادی واساسی مرحلہ اس اکیڈمی کا قیام ہے۔ان شاءاللہ
یادرہے کہ یہ عظیم پروجیکٹ اہل علم و معرفت ا ور اصحاب خیر کے تعاون اورمدد کا شدید محتاج ہے۔ تاکہ اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جاسکے۔
اہل ایمان اور اہل خیر سے پرزور اپیل ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور زندگی کے تمام شعبوں میں اعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر ہمارے دست و بازو بنیں۔
آخر میں ہم اللہ تعالی سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ان اقوال و افعال کی توفیق دے، جنہیں وہ پسند کرتا ہے اور ان سے خوش ہوتا ہے ۔ وہ ہمارے اس عمل کو قبول فرمائے اور اسے ہمارے میزان حسنات میں ڈال دے، جس دن مال اوراولاد کسی کام نہیں آئیں گے مگر جو شخص قلب سلیم کے ساتھ آیا۔
وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین


  [1]مذکورہ دونوں اقوال سے یہ بات مستنبط ہوتی ہے کہ قرآن مجید اور قراءات دو الگ الگ چیزیں ہیں۔قرآن مجید وہ ہے جسے سیدنا جبریلؑ نے نبی کریمؐ پر نازل فرمایا، جبکہ قراءات سے مراد وہ احتمالی وجوہ ہیں جو مکتوب رسم سے نکلتی تھیں، ہر قاری نے اپنی رائے اور استطاعت کے مطابق اسے پڑھا۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ نہیں ہیں۔
بالفاظ دیگر ایک قراءات اصلی ہے اور دیگراس کی فرع ہیں: اصلی قراءت اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے جو ایک ہی لفظ اور ایک ہی شکل پر قائم ہے ، جبکہ فرعی قراءات وہ احتمالات ہیں جو سیدنا عثمان کے لکھے ہوئے مصاحف کے نقطوں اور اعراب کے بغیر رسم سے نکلتے تھے، اور وہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ نہیں ہیں۔
 اسی کے قریب قریب فکر اصلاحی کے حامل ایک متجدد    نے کہا ہے کہ متن قرآن ہم تک محفوظ حالت میں پہنچا ہے ، جبکہ اس کی قراءات میں اختلاف ہوگیا ہے۔گویا متن قرآن کو اس نے محفوظ قرار دےکر اس کی قراءات کو غیر محفوظ قرار دے دیا ہے۔ اور یہ ایک ایسی تقسیم ہےجو سلف و خلف علماء قراءات میں سے کسی سے ثابت نہیں ہے۔ اور نہ ہی عقل نقل سےاس کی کوئی سند ملتی ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔